واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت خواجہ عبید اللہ احرار

 

رحمۃ اللہ علیہ

      آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک ۸۰۶ ہجری میں حضرت خواجہ محمود بن خواجہ شہاب الدین قدس سرہ کے گھر تاشقند کے قریب باغستان میں ہوئی۔ آپ کا اسم شریف عبیداللہ، لقب ناصر الدین اور احرار ہے، زیادہ مشہور لقب احرار ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

            آپ کا اہل خانہ ایک طرف تو امیر کبیر صاحب دولت و ثروت تھا تو دوسری طرف اہل ذکر صاحب فیض و کمال۔ آپ کے جد امجد حضرت شہاب الدین علیہ الرحمۃ نے جب آخری وقت میں الوداع کہنے کے لیے اپنے پوتوں کو بلایا تو قریب آنے پر کم سن حضرت عبیداللہ کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اور پھر گود میں لیکر فرمایا اس فرزند کے بارے میں مجھے شہادت نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم ملی ہے کہ یہ پیر عالمگیر ہوگا اور اس سے شریعت و طریقت کو رونق حاصل ہوگی۔

           یہی وجہ ہے کہ بچپن ہی سے آپ کو بزرگوں کی زیارت و ملاقات کا شوق ذوق رہا۔ بہت سے بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دی اور فیض حاصل کیا۔ چنانچہ ۲۲ سے ۲۹ برس کے عمر تک آپ سفر میں رہے۔ ایک مرتبہ آپ ہرات میں تھے کہ ایک سوداگر نے آپ سے حضرت خواجہ محمد یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض پراثر کی تعریف کی تو اسی وقت بلخ کے راستے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔ جاتے ہوئے ان کے مرشد پاک خواجہ علاؤالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پرانوار کی زیارت کی۔

             جب حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت احرار علیہ الرحمۃ نے خود اپنی اس ملاقات کا اس طرح ذکر فرمایا۔فرماتےہیں کہتےہیں کہ جب میں نے ہرات کےایک سوداگرسےحضرت خواجہ یعقوب چرخی ؒ کے فضائل سنےتوان سے ملنےکےلئےچرخ جانےکےلئےروانہ ہوا۔ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہواتووہ بڑی لطف وخرم سےپیش آئےاورحضرت خواجہ نقشبندؒ سےاپنی ملاقات کاحال بیان فرماکراپناہاتھ میری طرف بڑھایا کہاکہ بیعت کر۔کیونکہ  ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفید ی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔اس لیے میری طبیعت ان کا ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔وہ میری کراہت کو سمجھ گئےاور جلدی اپنا ہاتھ ہٹا لیااور صورت تبدیل کرکے ایسے خوبصورت اور  شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہو گیا قریب تھا کہ میں بے خود ہو کر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دست مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ نقشبندؒ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔حضرت خواجہ بہاالدین نقشبندؒ کا ہاتھ پکڑ لو۔ میں نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔

              حضرت یعقوب چرخی قدس سرہ نے آپ کی روحانی تربیت فرمائی اور جلد ہی خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا“۔ حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی قدس سرہ جو آپ کے خلفاء میں سے ہیں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں جانا چاہے تو اسے عبیداللہ احرار کی طرح جانا چاہیے کہ چراغ بتی اور تیل سب تیار ہے صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر قبولیت عامہ عطا فرمائی تھی کہ بعض اوقات فرمایا کرتے تھے اگر میں پیری مریدی کروں تو کسی اور پیر کو مرید میسر نہ آئیں، مگر میرے ذریعے دوسرا کام لگایا گیا ہے اور وہ ہے شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی ترویج و اشاعت۔

        دو درویش دور دراز کا سفر کرکے آپ کی  زیارت کے لیے  جب خانقاہ پہنچے  تو معلوم ہوا کہ  خواجہ عبید اللہ احرارؒ بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔وہ درویش سخت حیران ہوئے کہ یہ کیسے شیح ہیں جو بادشاہ کے پاس جاتے ہیں۔کیونکہ فقیر جو امیر کے دروازے پر جاتا ہے بُرا ہے۔یہ سوچ کر وہاں ے نکل پڑے۔

             اتفاقاً اُسی وقت بادشاہ کے دربار سے دو چور بھاگ بھاگ گئے۔ان کو تلاش کرتے کرتے بادشاہ کے آدمیوں نے ان دونوں درویشوں کو پکڑ لیا ۔بادشاہ نے حکم دیا کہ ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں ۔حضرت خواجہ احرارؒ اس وقت بادشاہ کے پاس جلوہ افروز تھے۔فرمانے لگے کہ یہ دونوں درویش چور نہیں بلکہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔ان کو چھوڑ دو۔پھر آپ ان دونوں درویشوں  اپنے ساتھ خانقاہ میں لے آئےاور فرمایا کہ میں بادشاہ کے پاس اس لیے گیا تھا کہ تمہارے ہاتھ قطع ہونے سے بچاؤں۔اگر میں وہاں نہ ہوتا تو تمہارے ہاتھ قطع ہو چکے ہو تے۔اور تمہارے دل میں جو خیال آیا  کہ فقیر جو امیر کے دروازے پر جاتا ہے بُرا ہے۔اگر میں طمع دنیا کے واسطے وہاں جاتا تو غلط تھا۔ یہ سن کر دونوں درویش شرمسار ہوئے اور قدموں میں گر گئے۔

          حضرت احرار رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین و معتقدین میں جہاں درویش، فقراء نظر آتے ہیں وہاں بڑی تعداد میں امراء اور ولی بھی باادب کھڑے نظر آتے ہیں۔

          ۲۹ ربیع الاول ۸۹۵ ہجری کوجب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگاتو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کیں گیئں جن سے وہ مکان نہایت راشن ہو گیا۔اس اثنا میں آپ کے دونوں ابروں کے درمیان چمکتی ہوئی بجلی کی طرح نور نمودار ہوا جس کی شعاع نے تمام شمعوں کے نور کو مات کر دیا۔تمام حاضرین نے اس نور کا مشاہدہ کیااسی دوران آپ کی روح قفس عُنصری سے پرواز کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کوچہ ملایان سمرقند میں آپ کی آخری آرامگاہ ہے۔